مابدولت کو دن میں لاتعداد فارورڈ میسج موصول ہوتے ہیں۔ یہ میسج بھیجنے والی قوم بھی بڑی عجیب ہوتی ہے۔ صبح اٹھتے ہی "گڈ مارننگ" کا میسج، کچھ دیر بعد کسی بزرگ کا قول، دوپہر میں بہت شائستہ انداز میں کوئی دعا، پھر کوئی لطیفہ اور اس کے بعد "گڈ نائٹ" کے میسج تک ایسی ایسی "پوئیٹری" کہ الحفیظ الاماں۔۔۔ مابدولت شام سے رات تک موصول ہونے والے ان میسجز کو شعر کے بجائے "پوئیٹری" کہنے کا قائل ہے۔ بندہ کو انگریزی زبان بھی بہت پسند ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہرگز نہیں کہ یہ ہمیں آتی نہیں بلکہ یہ بڑے سے بڑے مسئلے کا حل بھی ایک منٹ میں نکال دیتی ہے جیسے یہی دیکھیے ایک بندہ اگر کسی کا کوئی نقصان کر بیٹھے تو اب بیچارہ معافی کیلئے پریشان، پہلے مناسب موقع تلاش کرے، پھر چہرے پہ شرمندگی طاری کرے اور پھر انتہائی لجاجت سے گویا ہو کہ "حضور میں انتہائی شرمندہ ہوں کہ آپ کے اس نقصان کا باعث بنا اس کیلئے آپ سے معذرت خواہ ہوں، براہ کرم اس غلطی کو خاطر میں نہ لائیے اور مجھے معاف فرما دیجئے۔"
اب دیکھیں انگریزی اس مسئلے کو کتنی خوبصورتی کے ساتھ حل کرتی ہے۔ اگر آپ کہیں کوئی غلطی کر بھی بیٹھیں تو نہ پریشان ہونے کی ضرورت اور نہ ہی خود پہ شرمندگی طاری کرنے کی حاجت، بس سیدھے "آئی ایم سوری" بولیے اور چلتے بنیے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ بندہ ایسے میسجز میں موصول ہونے والے بےتکے، بےوزن اور انتہائی بےجوڑ "جملوں" کو شعر کے بجائے "پوئیٹری" کہنے کے حق میں ہے، کیونکہ شعر کہنے کیلئے تو عروض کا خیال کرنا ناگزیر ہے اس لیے "پوئیٹری" کہیے پھر نہ اوزان کا مسئلہ نہ قافیہ و ردیف کا جھنجھٹ۔
خیر واپس موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ایسے "پوئیٹس" کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ انہیں کبھی کوئی باوفا محبوب نہیں ملتا۔ اداسی ان کا خاص وصف ہوتی ہے۔ دن کے کم و بیش بارہ گھنٹے یہ لوگ مایوس ہی پائے جاتے ہیں۔ ظلم یہ کہ ایسے لوگ اپنے ان بےتکے میسجز کے جواب کی بھی امید لگائے رکھتے ہیں۔ اگر کبھی غلطی سے سرراہ "محبوب" سے ٹاکرا ہو بھی جائے تو جواب نہ ملنے کا رونا ایسے رونے لگتے ہیں جیسے ان کی یہ "پوئیٹری" کوئی عام چیز نہیں تھی بلکہ ہیر کو لکھا گیا رانجھے کا خط تھا۔ ایسے پوئیٹس جب اپنی پوئیٹری کا جواب طلب کرتے ہیں تو باقی لوگوں کا تو معلوم نہیں مجھ ایسا غالب و جگر کو پڑھنے والا ہاتھ میں سر تھامے استاد غالب کا یہ شعر دوہرانے پہ ضرور مجبور ہو جاتا ہے
" حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں"
Comments
Post a Comment