بادشاہ

گہری رات کے سناٹے کو چیرتے دو نفوس اپنی منزل کو رواں تھے۔ کاندھے پہ بوجھ لادے وہ ڈگمگاتے قدم کے ساتھ سنسان راہ پر چلتا جا رہا تھا جبکہ اس کا ساتھی بار بار اسے نادم نگاہوں سے دیکھتا جاتا تھا۔ منزل پہ پہنچ کر اس نے کاندھے کا بوجھ اتار کر عورت کے قدموں میں رکھ دیا۔ بیوہ عورت کبھی اجناس کی بوری کو دیکھتی تو کبھی بھیگتی پلکوں کے ساتھ اس پہ نگاہ ڈالتی۔ کہنے کو تو وہ ایک بادشاہ تھا مگر دنیا اسے ’’عمرؓ‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔

Comments