"علامہ اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں"
جب بھی ایسا کوئی جملہ پڑھتا ہوں تو شدید غصہ آنے لگتا ہے۔ ہماری قوم کے ساتھ شروع سے یہی مذاق کیا جا رہا ہے اور بدقسمتی سے اب تک ہو رہا ہے کہ ہمارے قومی ہیروز کو محض شاعر، فلسفی یا پھر ایسا ہی کچھ اور بنا کر عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور ایروں غیروں کو قومی ہیروز کے مناصب پہ فائز کر دیا جاتا ہے۔ شومئی قسمت ہم بھی "بڑوں" کے پیش کردہ ہیروز کو ہی اپنا رہنما مان کر اپنے اصل قومی ہیروز اور رہنماؤں کے افکار اور نظریات کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔
میں نے اقبال رحمہ اللہ کو زیادہ تو نہیں پڑھا مگر جتنا بھی پڑھا وہ اتنا مان لینے کیلئے کافی ہے کہ اقبال صرف ہمارے قومی شاعر نہیں ہیں۔۔ اقبال کیا تھے یہ اُن کے خطبات اور شاعری میں فکر عمیق کے ساتھ جھانک کر تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اور عین وقت کا تقاضا ہے کہ اقبال کو مجرد شاعر سمجھے بنا ان کے نظریات و افکار کو سمجھ کر امت کے مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔
بدقسمتی سے آج تک اساتذہ سے اور نصاب کی کتابوں میں یہی پڑھا ہے کہ اقبال رحمہ اللہ پاکستان کے قومی شاعر ہیں لیکن میرے نزدیک اقبال ناصرف ایک قومی ہیرو ہیں بلکہ مصلح قوم ہیں جو ہمہ وقت اپنے نظریات، افکار اور اپنی شاعری کی صورت میں قوم کی رہنمائی کیلئے موجود ہیں۔
امام عطا اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ تعالی کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے (معلوم نہیں یہ نسبت درست ہے یا نہیں مگر بات سو فیصد درست ہے) کہ اقبال رحمہ اللہ کی وفات پہ فرمانے لگے کہ "اقبال کو نہ تو مسلمان سمجھ پائے اور نہ ہی انگریز، اگر مسلمان سمجھ جاتے تو آج اس حالت میں نہ ہوتے اور اگر انگریز سمجھ جاتے تو آج اقبال یوں نہ مرتا"۔
Comments
Post a Comment