خمار بارہ بنکوی

آج ابوبکر جتوئی بھائی کی طرز پہ ایک باکمال شاعر خمار بارہ بنکوی کا کچھ تعارف اور "کریمِ کلام" پیش کرنے کا ارادہ ہے۔۔ خمار بارہ بنکوی اپنے طرز شاعری میں جگر مراد آبادی کے ہی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ خمار کی شاعری کا انداز اتنا دلکش ہے کہ بلامبالغہ جس مشاعرے میں جاتے وہ مشاعرہ لوٹ لیتے۔
خمار ۱۹۱۹ء میں بارہ بنکی (اودھ) میں پیدا ہوئے۔ اصل نام محمد حیدر خان تھا اور خمارؔ تخلص استعمال کرتے تھے۔ جگر مراد آبادی ہی کی طرح بلا کے مےنوش تھے مگر ایک مرتبہ ایک مشاعرے کیلئے امریکہ جانا ہوا تو وطن واپسی پر مےنوشی ترک کر چکے تھے۔ اور جگر ہی کی طرح مےنوشی اس طرح ترک کی کہ پھر کبھی ہاتھ نہ لگایا۔ ایک مضمون نگار لکھتے ہیں کہ "خمار ان کا تخلص ہی نہیں تھا بلکہ وہ رندِ بلا نوش تھے، لیکن جب تائب ہوئے تو عالم یہ تھا کہ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔ تائب ہونے کے بعد انہوں نے ایک غزل میں یہ مقطع کہا:

خمار اب تخلص بھی اپنا بدل لو
بنے ہو جو مے کش سے اللہ والے

خمار قلندرانہ مزاج رکھتے تھے جو کہ انکی کی شاعری سے بھی جھلکتا ہے۔ ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کے عروج کے دور میں بھی خمار نے اسلاف کے طرز شاعری کا دامن تھامے رکھا جس نے انہیں اپنے دور میں انفرادیت بخشی۔۔ 

ذیل میں باذوق بیٹھکینز کیلئے نمونہ کلام پیش کر رہا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکیلے ہیں وہ اور جھنجھلا رہے ہیں
میری یاد سے جنگ فرما رہے ہیں

الٰہی میرے دوست ہوں خیریت سے
یہ کیوں گھر میں پتھر نہیں آ رہے ہیں

بہت خوش ہیں گستاخیوں پر ہماری
بظاہر جو برہم نظر آ رہے ہیں

یہ کیسی ہوائے ترقی چلی ہے
دیے تو دیے دل بُجھا رہے ہیں

بہشتِ تصور کے جلوے ہیں میں ہوں
جدائی سلامت مزے آ رہے ہیں

بہاروں میں بھی مے سے پرہیز توبہ
خمار آپ کافر ہوئے جا رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک اور غزل ہے

جھنجھلائے ہیں، لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں
کس اہتمام سے انہیں ہم یاد آئے ہیں

دیر و حرم کے حبس کدوں کے ستائے ہیں
ہم آج مے کدے کی ہوا کھانے آئے ہیں

اب جا کے آہ کرنے کے آداب آئے ہیں
دنیا سمجھ رہی ہے کہ ہم مسکرائے ہیں

گُزرے ہیں مے کدے سے جو توبہ کے بعد ہم
کچھ دُور عادتاً بھی قدم لڑکھڑائے ہیں
 
اے موت! اے بہشت سکوں! آ خوش آمدید
ہم زندگی میں پہلے پہل مسکرائے ہیں

جتنی بھی مے کدے میں ہے ساقی پلا دے آج
ہم تشنہ کام زُہد کے صحرا سے آئے ہیں

انسان جیتے جی کریں توبہ خطاؤں سے
مجبوریوں نے کتنے فرشتے بنائے ہیں

سمجھاتے قبلِ عشق تو ممکن تھا بنتی بات
ناصح غریب اب ہمیں سمجھانے آئے ہیں

کعبے میں خیریت تو ہے سب حضرتِ خمار
یہ دیر ہے جناب یہاں کیسے آئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حُسن جب مہربان ہو تو کیا کیجئے
عشق کی مغفرت کی دُعا کیجئے

اِس سلیقے سے اُن سے گلِہ کیجئے
جب گلِہ کیجئے ہنس دیا کیجئے

دوسروں پر اگر تبصرہ کیجئے
سامنے آئینہ رکھ لیا کیجئے

آپ سُکھ سے ہیں ترکِ تعلق کے بعد
اتنی جلدی نہ یہ فیصلہ کیجئے

کوئی دھوکا نہ کھا جائے میری طرح
ایسے کھُل کے نہ سب سے ملا کیجئے

عقل و دل اپنی اپنی کہیں جب خمار
عقل کی سنئیے دل کا کہا کیجئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خمار کے چند مشہور اشعار بھی ملاحظہ فرمائیے

حد سے بڑھے جو علم تو ہے زہر دوستو
سب کچھ جو جانتے ہیں وہ کچھ نہیں جانتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنا ہے ہمیں وہ بھلانے لگے ہیں
تو کیا ہم انہیں یاد آنے لگے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔

رات باقی تھی جب وہ بچھڑے تھے
کٹ گئی عمر رات باقی ہے
۔۔۔۔

خمارؔ ان سے ترک تعلق بجا
مگر جیتے جی کیسے مر جاؤں میں

خمار کی تصانیف میں حدیث دیگراں، آتشِ تر اور رقص مے شامل ہیں۔ خمار بارہ بنکوی میں ۱۹۹۹ء میں اپنی جائے پیدائش بارہ بنکی ہی میں وفات پائی اور وہیں سپرد خاک کیے گئے۔

؂ دعا ہے کہ نہ ہوں گمراہ ہمسفر میرے
خمارؔ میں نے تو اپنا سفر تمام کیا

Comments