میلے کپڑے، ٹوٹی جوتی، بکھرے بال مگر اجلا چہرہ۔ کمر پہ بڑا سا تھیلا لٹکائے وہ معصوم سا چہرہ مجھے روز دکھائی دیتا تھا۔ عمر زیادہ نہیں یہ ہی کوئی دس، بارہ برس ہوگی۔صبح ہی صبح وہ بازار میں موجود ہوتا، پورا دن دوکانوں کے باہر سے کاغذ، گتے کے ڈبے اور خالی بوتلیں اکٹھی کرکے اپنے تھیلے میں ڈالتا رہتا اور شام ڈھلتے ہی غائب ہو جاتا۔ کسی کو بھی اس کے آنے یا جانے کی خبر نہ ہوتی تھی۔کچرے میں سے اپنی مطلوبہ اشیاء ڈھونڈتے دھونڈتے وہ اکثر میری دوکان کے سامنے بھی آ جاتا تھا۔ مجھے اس کے معصوم سے چہرے میں ہمیشہ ہی ایک کشش محسوس ہوتی تھی۔ وہ پورا دن بازار میں پھرتا رہتا مگر کسی نے اسے بولتے ہوئے نہیں دیکھا۔ نہ ہی وہ عام بچوں کی طرح کھیلوں میں دلچسپی دکھاتا تھا۔ ایک دن جب وہ میری دوکان کے سامنے سے گتے کے ڈبے اکٹھے کرنے میں مصروف تھا تو میں نے اسے آواز دے کر اپنے پاس بلالیا۔ وہ نہایت ڈرے ہوئے انداز میں میرے پاس آیا جیسے کسی کی چوری پکڑی گئی ہو۔ "کہاں رہتے ہو تم؟"ـ میرے سوال پوچھنے پر اس نے ہاتھ سے بازار سے کچھ دور ایک خالی میدان میں لگی چند جھگیوں کی طرف اشارہ کیا۔ "ابا کیا کرتے ہیں تمہارے؟"ــــ میرے اس سوال پر اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور فوراََ ہی اس نے گردن جھکا لی۔ اس کی جھکی گردن دیکھ کر مجھ سے مزید سوال کرنے کی ہمت نہ ہو سکی ۔ میں نے اسے کچھ پیسے دینے چاہے لیکن اس نے انکار کر دیا۔ میرے زبردستی تھمانے پر اس نے پیسے اور تھیلا وہیں پھینک کر دوڑ لگا دی۔ مجھے شدید حیرت ہوئی۔ "عجیب بچہ ہے صبح شام پیسوں کیلئے مارا مارا پھرتا ہے اور جب پیسے دے رہا ہوں تو لیتا نہیں"۔ میں نے جب اس کا تھیلا ٹٹولا تو اندر سے دو خالی بوتلوں اور چند گتے کے ڈبوں کے علاوہ کچھ نہ نکلا۔
اگلے دن تمام وقت میری منتظر نگاہیں اس بچے کو تلاش کرتی رہیں لیکن وہ بازار میں نظر نہ آیا۔ کچھ دن بعد وہ پھر مجھے دکھائی دیا۔ وہ پھر سے بازار آنے لگ گیا تھا۔ لیکن اب وہ میری دوکان کے پاس سے نہیں گزرتا تھا۔ اس بچے کی معصومیت اور ڈبڈباتی آنکھیں ہمیشہ میرے سامنے رہتیں۔ ایک دن میں نے پختہ ارادہ کیا کہ اسے کچھ پیسے ضرور دوں گا۔ لیکن میں یہ بھی جانتا تھا کہ وہ اس طرح مجھ سے کسی صورت پیسے نہیں لے گا۔ آخر میں نے ایک ترکیب بنائی۔
اگلے دن مجھے ایک کام جانا تھا اس لیے میں شام سے کچھ پہلے ہی دوکان بند کرنے لگا۔ دوکان بند کرتے کرتے میری نظر اس بچے پہ پڑگئی جو قریب ہی ایک کچرے کے ڈھیر سے کچھ چننے میں مصروف تھا۔ میں نے اسے آواز دے کر ادھر آنے کا اشارہ کیا۔ وہ سہما ہوا میرے پاس آنے لگا۔ میں نے اس کے تھیلے سے باہر لٹکتے ہوئے ایک گتے کے ڈبے کی طرف اشارہ کر کے کہا "مجھے یہ چاہیے کتنے پیسے لوگے اس کے ؟" وہ بنا جواب دیے تھیلے سے ڈبہ نکالنے لگ گیا۔ میں نے اس کے ہاتھ سے ڈبہ پکڑتے ہوئے اسے بیس روپے تھما دیے۔ اس نے چپ چاپ پیسے پکڑے اور چلا گیا۔ میں خوش تھا کہ میری ترکیب کامیاب ہوگئی۔ اندھیرا بس پھیلنے ہی والا تھا ۔ میں نے جلدی سے دوکان بند کی اور تیز تیز قدموں سے بازار سے نکلنے لگا۔ بازار سے نکلتے ہی مجھے وہ خالی میدان اور اس میں لگی جھونپڑیاں دکھائی دینے لگیں۔ میری نظروں کے سامنے پھر وہی معصوم چہرہ گھوم گیا جسے میں آج دھوکے سے پیسے دینے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ نہ جانے کیوں مجھے اس چہرے میں اپنائیت محسوس ہوتی تھی۔ میں ابھی تھوڑا ہی آگے چلا تھا کہ ایک مکان کے تھڑے پر مجھے وہ بچہ بھی بیٹھا نظر آگیا۔ اس کا چہرہ عجیب سی سرشاری میں ڈوبا ہوا تھا جسے آج سے پہلے میں نے کبھی محسوس نہ کیا تھا۔ میں اس کے قریب چلا گیا ، مجھے دیکھ کر وہ ڈرا تو نہیں لیکن اس کے چہرے سے وہ خوشی غائب ہوگئی۔ میں نے دیکھا وہ ایک روٹی پر تھوڑے سے آلو رکھے کھا رہا ہے۔ ایسا کھانا میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ باریک کٹے ہوئے آلو اور اس کے ساتھ تھوڑی سی کوئی اور شے بھی تھی جو ان آلؤوں کا گاڑھا شوربا محسوس ہوتی تھی۔ "تم نے یہ کہاں سے لیا؟" میرے سوال پر اس نے پاس ہی موجود ایک ڈھابے کی طرف اشارہ کر دیا۔ مجھے اسے یہ کھاتا ہوا دیکھ کر ناگواری محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا "کیا تم روز یہ ہی کھاتے ہو؟" وہ جھٹ سے بولا "نہیں سالن آج لیا ہے".
Comments
Post a Comment