طیب نے اپنے کیبن میں آ کر ابھی سیٹ سنبھالی ہی تھی کہ پیچھے سے اس کا کولیگ رضوان بھی آ پہنچا۔ طیب اور رضوان ایک دوسرے کو عرصہ دراز سے جانتے تھے اور دونوں میں بے تکلفی بھی کافی تھی۔ طیب کی دو ماہ پہلے ہی شادی ہوئی تھی اور طویل چھٹیوں کے بعد کچھ دن پہلے ہی اس نے آفس دوبارہ سے جوائن کیا تھا۔
"السلام علیکم" رضوان نے طیب کے کیبن میں داخل ہوتے ہی سلام کیا "وعلیکم السلام"۔
"کیا حال ہیں بھئی تیرے؟" رضوان نے کرسی اپنی جانب کھینچتے ہوئے پوچھا۔
"بس یار ٹھیک ہوں تو سنا"۔
"میں بھی ٹھیک بھائی۔ اتنی افسردگی کیوں چھائی ہوئی ہے ؟ خیریت تو ہے نا ؟" رضوان طیب کے لہجے میں تھکان محسوس کرتے ہوئے بولا۔
"ہاں یار سب ٹھیک ہی ہے تو چھوڑ" طیب بے نیازی سے بولا۔
"کیا چھوڑ بھائی مجھے نہیں بتائے گا؟ ویسے بھی میں کافی دنوں سے دیکھ رہا ہوں تو پریشان لگتا ہے"
"ہاں یار بس ایک مسئلہ ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کیا کروں۔ صبح شام بس ایک ہی پریشانی لگی ہوئی ہے" آخر طیب بول ہی پڑا، "یار تجھے تو پتا ہے کہ میری شادی کے دنوں میں جب میرے پاس پیسے ختم ہوگئے تھے تو میں نے اپنے ایک جاننے والے سے کچھ پیسے ادھار لیے تھے"۔
"ہاں ہاں یاد ہے" رضوان اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔
"میں نے اس شخص سے دو ماہ بعد پیسے لوٹانے کا وعدہ کیا تھا"۔
"ہاں تو؟" رضوان طیب کے چہرے پر نظریں گاڑھے بیٹھا تھا
"یار اس ماہ اسے پیسے واپس کرنے ہیں لیکن تو تو جانتا ہے نا شادی پہ بھی بہت پیسے خرچ ہوئے، اس کے بعد بھی مسلسل خرچ ہو رہے ہیں۔ جوڑنے کیلئے پیسے بچ ہی نہیں پا رہے۔ اب تو ہی بتا میں پیسے کیسے واپس لوٹاؤں؟ میں تو سخت پریشان ہوں۔ ٹینشن کی وجہ سے میرا سر پھٹے جا رہا ہے" طیب نے اپنی بات ختم کی اور دونوں ہاتھوں میں سر دے کر بیٹھ گیا۔
"ہاں یار یہ تو واقعی پریشانی کی بات ہے" رضوان نے ایک لمبی سانس بھرتے ہوئے کہا۔ وہ بھی اب اچھا خاصا پریشان دیکھائی دے رہا تھا۔
"یار ویسے ایک بات میں کافی دنوں سے تجھ سے کرنا چاہ رہا تھا لیکن کہیں تو برا نہ منا جائے اس لیے چپ رہا" رضوان نے رکتے رکتے اپنا جملہ مکمل کیا۔
"نہیں نہیں یار تو بول، ناراضگی والی کیا بات ہے" طیب فوراََ بولا۔
"بھائی تجھے یاد ہے نا تیری شادی پر بہت زیادہ آتش بازی کی گئی تھی، ڈیکوریشن بھی کچھ زیادہ تھی اور وہ کافی سارا کھانا بھی تو آخر پہ بچ گیا تھا نا"
"ہاں ہاں یاد ہے۔ تو؟"
"یار تجھے نہیں لگتا کہ یہ سب ضرورت سے زیادہ تھا؟" رضوان نے غیر متوقع سوال کر دیا۔
"نہیں یار یہ سب تو اب رسم و رواج میں شامل ہے، اس سب کے بغیر تو شادی ادھوری سمجھی جاتی ہے" طیب نے رضوان کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
"نہیں میرے بھائی یہ ہی تو مسئلہ ہے" رضوان نفی میں سر ہلاتے یوئے پراعتماد لہجے میں گویا یوا، "دیکھ میرے بھائی آتش بازی، اتنی ساری ڈیکوریشن اور بچ جانے والے کھانے پر تیرے کتنے پیسے خرث ہوئے ہونگے ؟" رضوان نے اپنی بات جاری رکھی، "کافی زیادہ پیسے لگے ہونگے نا، اگر آتش بازی نہ کی جاتی، ٹھوڑی کم ڈیکوریشن سے کام چلا لیا جاتا اور کچھ کم کھانا بنوا کر منظم انداز میں پیش کیا جاتا تو کیا شادی پر کوئی فرق پڑتا؟"
طیب کے نفی میں سر ہلاتے ہی رضوان پھر سے بولنے لگا
"نہیں نا۔۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ سب فضول خرچی تھی جس ہر تو نے اپنے کافی سارے پیسے خرچ کر دیے" طیب آنکھیں کھولے رضوان کے چہرے کی جانب دیکھے ہی جا رہا تھا "تو سوچ اگر تو نے یہ فضول خرچی نہ کی ہوتی تو نہ ہی تجھے پیسے ادھار لینے پڑتے اور نہ ہی آج تو اس پریشانی میں ہلکان ہو رہا ہوتا"۔
"ہاں یہ تو ہے مگر۔۔۔۔۔" طیب نے کچھ کہنا چاہا مگر رضوان موقع دیے بغیر پھر سے بولنے لگا "ہمارا مذہب بھی ہمیں فضول خرچی سے روکتا ہے۔ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ
'آدمی کے سمجھ دار ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ اپنے اخراجات میں میانہ روی اختیار کرے ۔'
اسلام ہمیں کنجوسی اور فضول خرچی دونوں سے منع کرتا ہے۔ کنجوسی اور فضول خرچی کی درمیانی راہ کو میانہ روی کہا جاتا ہے۔ میانہ روی سے مراد یہ ہے کہ نہ تو انسان اپنی جائز ضروریات کو نظرانداز کر کے پیسے جوڑتا رہے اور نہ ہی کسی بھی ضرورت پر بے جا پیسے خرچ کرے۔ ایسے انسان کو 'اعتدال پسند' کہا جاتا ہے۔ اپنے معاملات میں اعتدال برتنے والا انسان کبھی بھی ناکام نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اعتدال پسند انسان کبھی کسی معاشی مسئلے کا شکار ہو پاتا ہے"
"کیا سمجھے میرے دوست؟" طیب جو نہایت غور سے اس کی باتیں سننے میں مصروف تھا رضوان کے اس اچانک سوال پر چونک گیا اور بے ساختہ اثبات میں سر ہلانے لگا۔
"اور رہا تمہارا مسئلہ تو اس کا حل بھی میرے پاس موجود ہے" رضوان پھر بولنے لگا "تمہیں پتا ہے نا میں نے گاڑی خریدنے کیلئے کچھ پیسے جوڑ رکھے تھے، تم وہ پیسے لے کر اپنا ادھار چکا دو"
'لیکن تم کیا کرو گے؟" طیب نے فوراََ سوال داغا
"ارے یار ایک ہی تو بات ہے" رضوان نے اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے جواب دیا ۔
"یار میرے پاس تمہارا شکریہ ادا کرنے کیلئے الفاط نہیں ہیں" طیب نے رضوان کی طرف تشکر آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا، "تم نے نہ صرف میری پریشانی حل کر دی بلکہ میرے غلط طرز عمل کی نشاندہی بھی کر دی"۔
"چل اب بس کر آ جا کینٹین پہ چلتے ہیں" رضوان نے طیب کو بازو سے کھینچ کر اٹھایا اور دونوں کینٹین کی جانب چل دیے۔
Comments
Post a Comment