8 اکتوبر 2005 کے زلزلے کی ہیبت و وحشت ابھی دماغ سے ٹھیک طرح نکلنے بھی نہ پائی تھی کہ ٹھیک دس سال سترہ دن بعد ایک مرتبہ پھر زمین بری طرح لرزنے لگی۔۔ الامان الحفیط۔۔ شدت پہلے زلزلے سے بھی کئی گنا زیادہ تھی۔۔ ایک ہی پل میں زبانوں پر کلمہ جاری ہو گیا اور ایسے لوگ بھی استغفار کرنے لگے جو شاید کبھی اپنی بد اعمالیوں پہ نادم بھی نہ ہوئے ہوں۔۔ زلزلے کی شدت اور دورانیے سے نقصان کا اندازہ لگانا مشکل نا تھا۔۔ چشم تصور میں زمین بوس مارگلہ ٹاور آنے لگا۔۔ ملبے ہر چیختی مائیں اور روتے بلکتے معصوم بچے آنکھوں کے سامنے آگئے۔۔ ملبے میں دبی ہر لاش کے ملنے پر برپا ہونے والی قیامت۔۔۔ کچھ بھی بہت پرانا تو نہیں تھا۔۔ زلزلہ تھم چکا تھا لیکن دل بے حد ڈرا ہوا تھا۔ نجانے کتنی بستیاں اجڑ چکی ہوں، کتنی عمارتیں ڈھے گئی ہوں۔۔ کتنی معصوم جانیں کسی سکول کے ملبے تلے دبی ہوں۔ کتنی دیر تک طرح طرح کے خیالات ذہن میں آتے رہے۔۔
لیکن اللہ کا بے حد شکر ہے کہ آج دوسرے دن تک بھی اس قدر نقصان کی اطلاعات نہیں ملیں جتنی توقع کی جا رہی تھی۔۔ الحمد للہ رب العالمین۔۔
لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ایک طبقے کی طرف سے اس زلزلے کو رب العالمین کے امرِ کن سے مستثنٰی قرار دیے جانے کی سعی کی جا رہی ہے۔ ایسے حضرات کے نزدیک یہ سانحہ محض موسمیاتی تغیر کا نتیجہ ہے اور کچھ "ماہرین" تو اسے گلوبل وارمنگ کا نتیجہ بتا کر گلوبل وارمنگ پہ اچھا خاصہ لیکچر بھی جھاڑ چکے ہیں۔ اور سب سے زیادہ قابلِ رحم وہ "دانشور" ہیں جو اس ناگہانی آفت کی تباہ کاریوں پر پریشان ہونے کے بجائے اس غم میں گھل رہے ہیں کہ ریکٹر سکیل پہ اس زلزلے کی شدت پانچ گنا زیادہ آنے کے باوجود بھی پہلے زلزلے سے اتنا کم نقصان کیوں ہوا۔۔
اللہ بچائے ایسی دانشوری سے جو اتنی بڑی آفت آنے کے باوجود بھی رجوع الی اللہ سے روکے۔ انتہائی ہمدردی کے لائق ہیں ایسے دانشور اور ان کی دانشوری جو انسانیت کے درد کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہوں۔ بہت مظلوم ہیں وہ ماہرین جو کائنات کے علوم سے رب کائنات کے امور میں مداخلت کے خواہاں ہیں۔ میں دل سے ایسے "ماہرین" اور "دانشوروں" کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتا ہوں۔
- محمد طلحہ قیصر
Comments
Post a Comment