خواب اور حقیقت

"ّ دودھیا سِٹّے
سٹّے دودھیا سٹے۔۔۔''

گلی میں گزرنے والے اس شخص کی آواز نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی جو ریڑھی کو دھکا لگاتے ہوئے آگے کی جانب گھسیٹ رہا تھا اور ساتھ آواز بھی لگاتا جا رہا تھا۔۔۔ سٹّے دودھیا سٹّے۔۔۔ میں نے فوراً گردن گھما کر اس شخص کو دیکھا جو بالکل میرے پیچھے پہنچ چکا تھا۔

سر پہ سفید کپڑا باندھے اور بوسیدہ سے لباس میں ملبوس اس شخص کی آواز میں عجیب ہی درد تھا، اس کا مرجھایا ہوا چہرہ کئی کہانیاں سنا رہا تھا۔ میں اس کے چہرے کو تکتا ہی رہا۔۔ درد و الم سورج کی تپش میں تپتے اس کے سرخ چہرے سے عیاں ہو رہا تھا۔

"ہر شخص خواب دیکھتا ہے اور اپنے ان خوابوں کو حقیقت میں ڈھلتے دیکھنا چاہتا ہے۔۔ بہترین لباس، ایک عالیشان محل، لمبی گاڑی، پہلو میں خوبصورت بیوی، کپڑوں سے اٹھتی دلکش مہک یہ سب خواب تو اس نے بھی دیکھے ہونگے۔ اور یقیناً دوسروں کی طرح وہ اپنے ان خوابوں کی تعمیل بھی چاہتا ہوگا مگر کیا ہوا کہ وہ اس طرح کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ۔ کون اس کے خوابوں کے درمیان حائل ہو گیا؟؟ "

وہ ریڑھی والا کب کا جا چکا تھا مگر میں ابھی تک انہی سوچوں میں غرق تھا۔۔ کیونکہ میرے اپنے بھی کچھ خواب تھے جنہیں میں ہر صورت پورے کرنا چاہتا تھا۔ میری سوچ کا محور انسانی خواہشات اور ان کی عدم تعمیل تھا۔ میں اپنے ارد گرد سے بے خبر بس اسی ایک سوچ میں گم تھا کہ اچانک ذہن کے کسی نہاں خانے سے آتی "وما الحیاۃ الدنیا الا متاع الغرور" کی صدا نے میری سوچ کے تسلسل کو توڑا۔ ۔
میں زیرِ لب مسکرایا اور بے ساختہ زبان پہ اس آیت کا ترجمہ آگیا۔

"اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا گھر ہے"

میری سمجھ میں آچکا تھا کہ یہ دنیا تو متاعِ فریب ہے۔ ۔ یہ ظاہر کچھ رکھتی ہے اور باطن کچھ اور۔ ۔ میں جان گیا تھا کہ ہر شخص خواب دیکھتا ہے اور اس کی تعمیل چاہتا ہے مگر جتنے جتن بھی کرلے وہ اپنے ان خوابوں کو ہو بہو حقیقت کا رنگ نہیں دے سکتا۔ وہ اپنے خوابوں کو اپنی مرضی کے مطابق حقیقت کے روپ میں نہیں ڈھال سکتا۔

ذہن و قلب کو ایک اطمینان سا ہوگیا۔۔ میں نے دور جاتے اس خوانچہ فروش پر ایک نگاہ ڈالی اور اپنے گھر کی راہ کو چل دیا۔۔

Comments