اسلام امن اور محبت کا داعی ہے۔ اسلام کی تمام تر تعلیمات محبت، امن اور برداشت کو فروغ دیتی ہیں۔ مگر موجودہ زمانے میں اسلام کو دہشتگردی سے جوڑ کر پوری دنیا میں تمام مسلمانوں کو دہشتگرد باور کروانے کی بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے مسلمانوں کی تعداد میں روز بروز بڑھتے ہوئے اضافے کو دیکھ کر تمام یورپی ممالک ایک خود ساختہ ذہنی بیماری کا شکار ہو چکے ہیں جسے "اسلام فوبیا" کہا جاتا ہے۔
اسلام فوبیا کے زیرِ اثر مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں اور خصوصاً نو مسلموں پر دہشتگرد حملوں میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یوں تو تقریباً تمام غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کے خلاف دہشتگرد کاروائیاں دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے بوسنیا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، چین، ڈنمارک، انڈونیشیا اور آسٹریلیا میں سب سے زیادہ اسلام مخالف سرگرمیاں ریکارڈ کی گئیں۔ ان ممالک میں طرح طرح کی پابندیاں لگا کر اجتماعی اور انفرادی طور پر مسلمانوں کو ہراساں کیا جاتا ہے نیز مسلمانوں کی املاک اور جانوں تک کو بھی نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ گزشتہ چند برسوں میں بوسنیا میں اسلام مخالف نظریات کے زیرِ اثر مسلمانوں کی نعشوں کے انبار لگا دیے گئے۔۔ کینیڈا، فرانس اور جرمنی میں بھی بے شمار مسلمانوں کو دہشتگردی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا جنہیں پھر کبھی واپس گھروں کا لوٹنا نصیب نہ ہوا۔ چین میں تو باقاعدہ طور پر رمضان میں روزہ رکھنے پر پابندی لگا دی گئی اور روزہ رکھنے کے جرم میں بہت سی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں۔ مذکورہ بالا ملکوں کے بعد اب ایک رپورٹ میں ثابت ہوا ہے کہ اسلام مخالف نظریات اور دہشتگرد کاروائیوں میں برطانیہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ لندن پولیس کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ برسوں کی نسبت رواں سال مسلمانوں پر ہونے والے حملوں میں ستر فیصد اضافہ ہوا ہے۔ لندن میٹروپولیٹن پولیس کے مطابق جولائی 2014ء سے جولائی 2015ء کے درمیان 1836 ایسے واقعات درج کیے گئے ہیں جس میں مسلمانوں کی املاک، جان یا پھر عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ یاد رہے ان درج شدہ واقعات کے علاوہ بھی ایسے واقعات کی تعداد ہزاروں میں ہے جو درج نہیں ہو سکے۔
لندن میں مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کے خلاف کام کرنے والی ایک تنظیم "ٹیل ماما" (Tell MAMA) کے مطابق مسلمانوں پر کیے جانے والے حملوں میں مسلم خواتین کو مردوں کی بنسبت زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ٹیل ماما کے ڈائریکٹر فیاض مغل کا کہنا ہے کہ "دیکھا جاتا ہے کہ اسٹریٹ لیول پر جو خواتین سکارف یا نقاب کے ذریعے منہ ڈھانپے ہوتی ہیں انہیں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے"۔
بی بی سی کے مطابق بھی جو خواتین پردے کی عادی ہوتی ہیں انہیں اس طرح کے پرتشدد رویوں کا زیادہ سامنا رہتا ہے۔
پوری دنیا اور بالخصوص یورپ میں اسلام مخالف بڑھتی بے چینی یہ ثابت کر رہی ہے کہ جہاں ایک عرصے تک فکری محاذ کے بعد مسلم ممالک میں جنگی محاذ کھولے رکھے گئے وہیں اب یورپی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف دیارِ غیر میں ایک نیا محاذ کھول دیا گیا ہے جہاں بے یار و مددگار مسلمانوں پر جس طرح مرضی ظلم و ستم ڈھایا جا سکے۔
حالات حاضرہ کو دیکھتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مسلم ممالک کے حکمران اپنی موجودہ روایات کو ترک کرکے ہوش کے ناخن لیں اور باطل کی چالوں کو سمجھتے ہوئے ان کے سامنے مسلمانوں کا ایک ایسا اتحاد کھڑا کیا جائے جسے کھوکھلا کرنا دشمن کی استطاعت سے باہر ہو۔
Comments
Post a Comment