وہ ایک چھوٹے قد کی، خاموش طبع، باتہذیب اور شرمیلی خاتون تھی، جسے محفل میں کوئی مشکل سے ہی نوٹ کر پاتا تھا لیکن اگر موقع پر کچھ کہنے کی ضرورت پڑتی تو بھی وہ پیچھے نہ ہٹتی تھی۔ وہ شروع سے ہی نازک مزاج تھی ذرا سی بات کو دل پر لے لیا کرتی تھی۔ اس کی اسلام سے لگن قابلِ رشک تھی۔ جب وہ امریکہ کی MIT یونیورسٹی میں پڑھتی تھی تو اس نے وہاں ایسے لوگوں کیلئے جو دوسروں کو اسلام کی دعوت دینا چاہتے ہوں تین معلوماتی کتابیں لکھیں۔ اس کی سب سے بڑی خواہش دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنا ہوتی تھی۔ بوسنیا میں جب جنگ کا آغاز ہوا تو وہ چین سے نہ بیٹھی بلکہ جو کچھ بھی اس سے بن پڑا فوراً بروئے کار لے آئی۔ اپنے آپ کو خیالی دنیا میں بند کر کے اس نے اپنے آپ کو بوسنیا جا کر بذات خود امدادی کارروائیوں میں حصہ لینے کے خوابوں سے بہلانے کے بجاۓ، اس سے جو کچھ ہو سکا اس نے کر ڈالا۔ وہ لوگوں کو بوسنیا کے حالات بتاتی اور ان سے چندے کی اپیل کرتی۔ ایک مرتبہ اس نے ایک مقامی مسجد میں بوسنیا کے یتیموں کیلئے فنڈ اکٹھا کرنے کیلئے تقریر کی، لوگ خاموش تماشائی بن کر اسے دیکھ رہے تھے کہ اتنے میں اس نے کہا، اس کمرے میں موجود کتنے لوگوں کے پاس جوتوں کے ایک سے زائد جوڑے ہیں؟ آدھے لوگوں نے ہاتھ اٹھا لیے۔ اس پر اس نے کہا: تو پھر انہیں بوسنیا کے ان یتیم بچوں کو دے دیجئے جنہیں جلد ہی شدید سردی کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس کی یہ اپیل اتنی موثر تھی کہ امام مسجد تک نے اپنے جوتے اتار کر بوسنیا کے مسلمانوں کی امداد کیلئے دے دیے۔ مگر افسوس صد افسوس انسانیت کا اتنا درد رکھنے والی حافظہ عافیہ صدیقی کو اپنوں کی مدد سے 30 مارچ 2003 کو کراچی کی گلیوں سے اغوا کرلیا گیا۔ عافیہ صدیقی کو اپنے گھر سے ائیرپورٹ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ان کے تین بچوں سمیت اغوا کیا گیا۔ ڈاکٹر عافیہ کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ مظلوم مسلمانوں کا درد اپنے دل میں رکھتی تھیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکی یونیورسٹی میسی چیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) سے Cognitive Neuroscience کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد امریکی غلامی اختیار نہ کی مگر وہ نہیں جانتی تھیں کہ کہ سب لوگ ان کے جیسے باحمیت نہیں، ڈاکٹر عافیہ کو اندازہ نہیں تھا کہ ان کے اپنے وطن کے حکمران امریکی غلامی اختیار کر چکے ہیں، وہ سوچ بھی نہ سکتی تھیں کہ ان کے وطن کے محافظ اپنی بیٹی کا سودا کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کراچی سے اغوا کے بعد افغانستان لے جایا گیا جہاں سے بعد میں امریکہ منتقل کر دیا گیا۔ طالبان سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرنے والی ایک صحافی خاتون کی نشاندہی کرنے پر پہلی مرتبہ 2008 میں امریکہ کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری کا اقرار کرنا پڑا۔ امریکی سیکیورٹی اداروں نے عورت ذات کا لحاظ کیے بغیر ڈاکٹر عافیہ پر ظلم و ستم کے ایسے پہاڑ توڑے جسے سن کر روح کانپ جاتی ہے۔
تصور کیجئے، آپ کو مکمل برہنہ کرکے ایک اندھیری کال کوٹھری میں پھینک دیا جائے، آپ کے کھانے میں غلاظت ملا دی جائے، آپ کو سر میں ڈنڈے مار مار کر بے ہوش کر دیا جائے اور خون سے تر کپڑے تبدیل کرنے کی اجازت بھی نہ دی جائے، آپ کو برہنہ حالت میں سرد خانے میں ڈال دیا جائے جس کا درجہ حرارت نقطہ انجماد کی حد تک کم ہو، آپ کے سامنے قرآن پاک کے اوراق بکھیر کر آپ کو اس کے اوپر چلنے پر مجبور کیا جائے اور نہ چلنے پر انتہائی تشدد کا نشانہ بنایا جائے، آپ کو بچوں کے قتل کی دھمکیاں دی جائیں، آپ کے پیٹ میں بلاوجہ گولیاں مار دی جائیں۔ تصور کریں ! یقیناً نہیں کیا جاسکتا۔ ایک انسان پر اتنے سارے مظالم بھلا کیسے ڈھائے جا سکتے ہیں اور وہ کیونکر اتنے مظالم برداشت کر سکتا ہے۔ مگر یہ سب وہ مظالم ہیں جو قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر امریکہ اور افغانستان کے مختلف عقوبت خانوں میں ڈھائے گئے اور ڈھائے جا رہے ہیں اور صرف اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ خود کو سب سے انصاف پسند قوم گرداننے والے امریکیوں کی عدالت میں 24 ستمبر 2010 کو ڈاکٹر عافیہ کو القاعدہ سے تعلق رکھنے اور امریکی فوجیوں پر گولیاں چلانے کے الزام میں 86 سال کی سزا سنا دی گئی۔ پوری عدالتی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہوا جب کسی کو اتنی طویل قید کی سزا سنائی گئی ہو جبکہ اُس پر لگنے والے الزامات کو ثابت بھی نہ کیا جا سکا ہو۔
میں یہاں کسی عالمی ادارے سے گلہ نہیں کرنا چاہتا، مجھے اغیار سے کوئی شکوہ نہیں کیونکہ مجرم تو میں خود ہوں۔ لیکن میں تمام عالمِ اسلام اور خصوصاً مسلم حکمرانوں سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں چھپن (56) مسلم ممالک ہونے کے باوجود بھی ایک مسلمان بیٹی کی زندگی کا فیصلہ امریکی عدالت میں کیسے ہو گیا ؟
میں اس تحریر میں آپ کو غزوہ بنو قینقاع کا قصہ نہیں سناؤں گا، میں نہیں سمجھانا چاہتا کہ ایک بیٹی کے دوپٹے کا تقدس کیا ہوتا ہے، محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی اور طارق بن زیاد کے قصے بھی پرانے ہو چکے، میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ دعا کیلئے ہاتھ اٹھائیں اور دعا کریں کہ اغیار کے زندانوں میں اپنی آزادی سے ناامید ڈاکٹر عافیہ صدیقی یہ بھول جائے کہ اس کا تعلق ایک ایسی امت سے ہے جس کا نبی عورت کے دوپٹے کے تقدس کیلئے خود ہاتھ میں تلوار لے کر نکلا، وہ بھول جائے کہ وہ اس قوم سے ہے جس نے محمد بن قاسم جیسے بچے پیدا کیے، وہ بھول جائے معتصم باللہ نے کیوں ایک پورے شہر کو تخت و تاراج کیا، اسے "اغثنی اغثنی" کی پکار پر لبیک کہتا حجاج بن یوسف بھول جائے۔ بس دعا کیجئے !
Comments
Post a Comment