گھڑی سات بجا رہی تھی۔ میں ٹی وی لاؤنج میں ٹی وی کی جلتی ہوئی بڑی سی اسکرین کے عین سامنے پڑے مخملی صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔ ہاتھ میں پکڑے موبائل فون کے ذریعے میں اپنے دوستوں کے ساتھ گفتگو میں اتنا مگن تھا کہ ٹی وی پر کیا چل رہا ہے، مجھے کوئی خبر نہیں تھی۔ ٹی وی اسکرین تو کجا مجھے اپنے آس پاس کی بھی خبر نہیں تھی۔ میں انتہائی خوشگوار موڈ میں اپنے ایک پرانے کلاس فیلو کے ساتھ بات چیت میں مصروف تھا کہ اچانک میری نظر ٹی وی کی اسکرین پر پڑی، میں ایک دم ٹھٹھک گیا۔ یہ کیا ؟؟ سامنے کے مناظر انتہائی دردناک تھے۔ میں چاہتے ہوئے بھی اپنی نظر ٹی وی اسکرین سے نہ ہٹا سکا۔
ایک لمبی بچھی ہوئی پیلے رنگ کی چادر پر جابجا پڑے ہوئے انسانی جسم کے اعضاء اور اردگرد ہاتھوں میں چھریاں لیے نوجوان، ایک میدان کے عین وسط میں سینکڑوں کی تعداد میں پڑے ننگ دھڑنگ انسانی لاشے اور اردگرد لال لبادوں میں ملبوس لوگوں کا جمِ غفیر، ایک ویرانے میں کچرے کے ڈھیر میں پڑے ہوئے انسانی جسم کے چند جلے ہوئے اعضاء جن میں سب سے نمایاں ایک نوخیز کلی کا ادھ جلا چہرہ، گھاس کے اوپر پڑی ایک خاتون کی بنا سر کی نعش اور اردگرد بکھرا خون، تا حدِ نظر پھیلا گھروں کا ملبہ اور جلے ہوئے بے شمار درخت، سڑک کے ایک کنارے لہو سے تر تین ننھے معصوم بچے اور ساتھ ہی پڑے بستے اور ٹوپیاں، فرش پر پڑی مسخ شدہ باریش چہروں والے نوجوانوں کی نعشیں جن میں سے ایک کی کھوپڑی کھل چکی تھی، ماں کی نعش سے لپٹ کر روتا ہوا بنا کپڑوں کے ایک معصوم سا بچہ۔ ۔ یہ وہ مناظر تھے جو میں نے ٹی وی پر دیکھے، مجھے یہ قیامت کے مناظر معلوم ہو رہے تھے مگر ایک انٹرنیشنل نیوز چینل انہیں برمی مسلمانوں کے حالات بتا رہا تھا۔
میں یہ سب کچھ برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔ میرا دل پھٹنے کے قریب تھا، "اے خدایا ! تیری زمین پر تیرے بندوں کے ساتھ یہ سب بھی ہو سکتا ہے"، میری زبان سے بے ساختہ یہ کلمات نکلے۔ ۔ میری آنکھیں دھندلا گئیں اور چند موٹے موٹے آنسو میرے رخساروں کو تر کرتے ہوئے بہہ گئے۔ غم اور غصے کی ملی جلی کیفیت میں میں نے ریموٹ سے ٹی وی بند کر دیا۔ میں وہیں صوفے پر بیٹھا سوچتا رہا، میں ان مظلوم مسلمانوں کیلئے کچھ کرنا چاہتا تھا۔ ۔ میں سوچ رہا تھا کہ میں اپنے ان مسلمان بھائیوں کی مدد میں کیسے حصہ لے سکتا ہوں۔ میرے دماغ میں کافی ہلچل مچی ہوئی تھی کہ اچانک میری نظر اپنے موبائل فون پر پڑی جو کہ کافی دیر سے بج رہا تھا۔ ۔ میں نے گھڑی پر نظر ڈالی تو آٹھ بج چکے تھے۔ ۔ اووووہ۔ ۔ قریبی مساجد سے عشاء کی اذان کی آوازیں بھی گونجنے لگی تھیں، میں نے موبائل پکڑا جہاں پہلے سے ہی میسجز کی ایک لمبی قطار میری منتظر تھی، میں خاصا پریشان ہو گیا۔ ۔ جلدی سے ایک میسج ٹائپ کیا "I am coming" اور بھاگتا ہوا اپنے کمرے میں پہنچا، کپڑے تبدیل کیے اور فوراً ہی گیراج میں کھڑی اپنی گاڑی میں جا پہنچا۔ ۔ "مجھے جلدی پہنچنا ہے، ٹائم بہت کم ہے"، میں خود کلامی کرنے لگا۔ میں گاڑی کو تیز سے تیز دوڑاتا ہوا مین روڈ پر لے آیا اور اب میری گاڑی لاہور کی مشہور مال روڈ پر زناٹے بھر رہی تھی، میں کسی قدر ریلیکس ہو چکا تھا۔ جلد ہی میں اپنی منزل پر پہنچ چکا تھا۔ فوٹریس اسٹیڈیم میں داخل ہوتے ہی مجھے میرے دوست نظر آگئے جہاں وہ پہلے سے ہی میرا انتظار کر رہے تھے۔ میں نے دیر سے پہنچنے پر سب سے معذرت کی اور پھر سب ہنستے ہنساتے سینیما ہال کی جانب چل دیے جہاں آج سب کی دلپسند فلم سیریز "فاسٹ اینڈ فیوریس" لگنے والی تھی۔
Comments
Post a Comment