مسلسل پروان چڑھتی سیاسی اور معاشی مشکلات کا شکار پاکستان چند ایسے مسائل برداشت کرنے پر بھی مجبور ہے جو مسائل صاحبِ اقتدار طبقے کی توجہ مبذول کروانے میں تو کامیاب نہیں رہتے مگر ان کے نتائج پاکستان کے مستقبل کے لئے بالکل بھی اچھے نہیں ہیں۔ سیاسی اور معاشی مسائل کی وجہ سے ملکی حالات میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے سب واقف ہیں اور ان کے سدباب کیلئے بھی کسی حد تک کوششیں جاری ہیں۔ مگر صرف سیاسی اور معاشی مسائل پر ہی توجہ دینے کی بجائے اُن مسائل پر توجہ دینا بھی بے حد ضروری ہے جن کا بظاہر سیاست یا معیشت سے تو کوئی گہرا تعلق نہیں ہے البتہ معاشرے اور معاشرت سے گہرا تعلق ہے۔ اُن مسائل میں سے ایک مسئلہ پاکستان کی نوجوان نسل میں سگریٹ اور شیشہ سموکنگ کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار چند ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں تمباکو اور منشیات کا استعمال بہت تیزی سے نوجوان نسل میں پھیل رہا ہے۔
ہمارے ہاں کسی زمانے میں سگریٹ نوشی کو ایک قبیح فعل جانا جاتا تھا مگر آج کل کے حالات یکسر مختلف ہیں، آج سگریٹ کا آزادانہ استعمال ہو رہا ہے گویا سگریٹ کو زندگی کا ایک اہم جزو سمجھا جاتا ہے۔ مزید برآں اب سگریٹ کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کے نوجوانوں میں شیشے کا استعمال بھی بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ نوجوان شیشے کا استعمال فیشن سمجھ کر شروع کرتے ہیں جو کہ بڑھتے بڑھتے لت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عام طور پر شیشے کے عادی افراد میں 14 سال سے لے کر 22 سال کی عمر تک کے نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے اور یہ لت صرف نوجوان لڑکوں تک ہی محدود نہیں بلکہ نوجوان لڑکیوں کی ایک کثیر تعداد بھی اس کی زد میں ہے۔
ہمارے ملک کی نوجوان نسل جس زہر کو شیشے کے نام پر اپنی رگوں میں گھول رہی ہے پرانے وقتوں میں اسے حقہ کے نام سے منسوب کیا جاتا تھا۔ حقہ پینے کی روایت آج سے تقریباً تین ہزار سال پرانی ہے، کہا جاتا ہے کہ اس زہر کی وباء بھارت کی ریاست راجھستان سے دنیا کے مختلف کونوں میں پھیلی۔ ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ حقہ بنانے کیلئے تمباکو، ٹار اور نیکوٹین کا استعمال کیا جاتا ہے، لیکن حقے کی جدید قسم شیشے میں تمباکو کی بو کو زائل کرنے کیلئے اس میں سوئیٹ فلیورز شامل کیے جاتے ہیں گویا زہر سے نکلنے والی بو کو خوشبو میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ پچھلے چند برسوں سے شیشہ نوشی کی وباء پاکستان کے ساتھ ساتھ ترکی، بھارت، بنگلہ دیش اور چائنا میں بھی بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ موجودہ دور میں کم عمر لڑکے اور لڑکیاں تفریحی مقامات، کالجوں، یونیورسٹیوں اور سڑکوں پر سرے عام سموکنگ کرتے نظر آتے ہیں خواہ وہ شیشے کی صورت میں ہو یا سگریٹ کی صورت میں۔ آج ہماری نوجوان نسل نے شیشے کو فیشن کے طور پر اپنایا ہے کیونکہ وہ اس کے نقصانات سے لاعلم ہیں۔ اسی لاشعوری ہی کے سبب آج ہماری نئی نسل اپنی زندگیوں کو اپنے ہاتھوں تباہ کر رہی ہے۔ یہ امر نہایت ضروری ہے کہ نوجوانوں کو شیشے سے جڑے نقصانات سے روشناس کروایا جائے۔
دل کی بیماریاں، سانس کی تکلیف، پھیپھڑوں کا کینسر، دمہ، خوراک کی نالی کا کینسر، نمونیا یہ سب وہ بیماریاں ہیں جن کی وجہ شیشہ سموکنگ ہے جو کہ ہمارے ملک میں سگریٹ کی طرح باآسانی چھوٹے بڑے ہوٹلوں، دکانوں اور شیشہ کیفیز پر نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے دستیاب ہے۔ صحت سے متعلق عالمی تنظیم ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (W.H.O) کے مطابق پاکستان میں 20 سے 25 ملین افراد تمباکو نوشی کرتے ہیں جن میں 36 فیصد لڑکے اور 9 فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میر ہر سال 8 ہزار افراد تمباکونوشی کرنے کی وجہ سے بےشمار بیماریوں کا شکار ہو کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، یاد رہے شیشہ پینا بھی تمباکو نوشی ہی میں شامل ہے۔ تحقیقات کے مطابق شیشے میں سگریٹ کی نسبت 36 فیصد ٹار، 1.7 فیصد نیکوٹین جبکہ 8.3 فیصد کاربن مونو آکسائیڈ کی زیادہ مقدار پائی جاتی ہے جوکہ زہر قاتل کی طرح دن بدن نوجوانوں کی صورت میں پاکستان کے قیمتی سرمائے کو مفلوج کر رہا ہے۔
شیشے کے بڑھتے ہوئے رجحان اور نوجوان نسل کے اس گرتے ہوئے اخلاقی اقدار کا سبب آپ اجتماعی بےحسی کو مانیں یا انفرادی کم علمی کو، دونوں ہی درست ہیں۔ اس جرم میں ایک عام پاکستانی، اساتذہ اور خصوصاً والدین اتنے ہی قصوروار ہیں جتنے کہ صاحب اقتدار اور حکومت ہے۔ آج نوجوانوں کی اس قدر اخلاقی پستی اور تنزلی کا اندازہ کرتے ہوئے شاعرِ مشرق کا یہ شعر ذہن میں گونجتا ہے
نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبیعت نے
یہ رعنائی،یہ بیداری،یہ آزادی،یہ بے باکی
پاکستانی نوجوانوں کو فیشن کے نام پر پھیلنے والی اس وباء سے چھٹکارا دلانے کیلئے ضروری ہے کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں شیشے کہ نقصانات سے متعلق آگاہی کیلئے سیمینارز منعقد کیے جائیں، اساتذہ اپنی کلاسوں میں طلباء کے درمیان شیشے کے نقصانات کے موضوع پر بحث کروائیں، والدین اپنے بچوں کو شیشے کے نقصانات سے متعلق معلومات فراہم کریں اور حکومت کی طرف سے شیشہ کیفیز اور ہوٹلوں میں شیشے کی دستیابی پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ مناسب حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کے حل کے لئے انفرادی کوششوں کی بھی بہت ضرورت ہے کیونکہ شیشہ پینے والے افراد اس کے ذریعے سے نہ صرف اپنی صحت کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں بلکہ ان کے اس عمل سے دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ ہمارا ماحول بھی شدید متاثر ہوتا ہے۔ سگریٹ اور شیشے سے نکلنے والا دھواں ہوا کو آلودہ کر رہا ہےجس سے صاف اور تازہ ہوا کی فراہمی میں دن بدن کمی واقع ہو رہی یے۔ اگر حکومتی اور انفرادی سطح پر مناسب اقدامات کیے جائیں تو ہم اس جان لیوا فیشن کو اپنے معاشرے سے ختم کر سکتے ہیں اور اس کیلئے ضرورت ہے تو بس ہمت اور پختہ عزم کی۔
Comments
Post a Comment