الیکشن 2013 سے قبل عمران خان صاحب کے سیاسی کارناموں سے میں کچھ خاص واقف نہ تھا لیکن الیکشن کیلئے خان صاحب کی کیمپین اور خان صاحب کے جذبے نے مجھے بےحد متاثر کیا ۔ میں بھی خان صاحب کے حامیوں میں شامل ہو گیا اور لیگی دوستوں کی محافل میں بھی خان صاحب کے مؤقف کو ڈیفینڈ کرتا رہا ۔ لیکن الیکشن سے قبل خان صاحب کے چند متنازعہ بیانات نے کافی بددل کیا ۔ امید تھی کہ اس بار الیکشن میں خان صاحب خودمختار حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ خان صاحب سےتو میں بددل تھا ہی لیکن حق میں ن لیگ کے بھی نہ تھا ۔ الیکشن کے نتائج خیال سے برعکس آنے اور اس کے بعد خان صاحب کے دھاندلی کے شور نے عوام پر بہت کچھ واضح کر دیا خان صاحب کی سیاسی ناپختگی سب کے سامنے آگئی ۔
الیکشن میں دھاندلی سے انکار نہیں اور نہ ہی خان صاحب کے طریقہ کار سے اختلاف ہے مگر دھرنے کے دوران حکومت پر لگائے جانے والے الزامات کے ثبوت کمیشن کو پیش نہ کرنا اور الزامات سے مکرنا یقیناً خان صاحب کی سیاسی بلوغت کی نشاندہی نہیں کرتا ۔ خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد خان صاحب کے پاس اپنی ٹیم کی صلاحیتوں کو سب کے سامنے لانے کا بہترین موقع تھا مگر خان صاحب نے اسے بھی اپنا رونا رونے میں ضائع کردیا۔ جنرل الیکشن کے بعد اب بلدیاتی الیکشن میں بھی خان صاحب کا ایسا ہی رویہ دیکھنے کو ملا ، جنرل الیکشن کی طرح ہی بلندوبالا دعوے اور مخالفین کے بری طرح پرخچے اڑانا مگر اس بار بھی اب تک کے نتائج بالکل ویسے ہی ہیں۔ ۔ خان صاحب کے سب کے سب دعوے ایک مرتبہ پھر سے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ مزید معاملہ سنگین اس وقت ہوا جب الیکشن کے دن اپنے ہی صوبے میں تحریکِ انصاف کے کارکن دھاندلی کرتے ہوئے پائے گئے اور تو اور تحریکِ انصاف کے صوبائی وزیر بھی بذات خود بلٹ بکس چراتے ہوئے پکڑے گئے۔ اب مسئلہ تو اس بار بھی دھاندلی کا ہی ہے جس کا انصافیے انکار بھی نہیں کر سکتے مگر اس بار دھاندلی کا الزام ن لیگ پر نہیں بلکہ خود تحریکِ انصاف پر ہے۔
کہاوت ہے "جس کا کام اسی کو ساجھے" ، شریف برادران اس وقت اپنی تیسری باری لے رہے ہیں اور بیس سال سے زائد عرصے سے سیاسی شطرنج کھیلنے میں مصروف ہیں ، میاں برادران سیاست کا اس قدر تجربہ رکھتے ہیں کہ آسانی سے کسی بھی نئے حریف کو پچھاڑ سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں اور اس قدر مضبوط حریف کے سامنے خان صاحب کا بچگانہ رویہ سمجھ میں نہیں آتا۔
خان صاحب اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے بیانات سے کچھ یوں معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان صاحب ایک طرف جبکہ پارٹی کے دوسرے راہنما دوسری طرف کھڑے ہیں۔
پارٹی مختلف دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ خان صاحب کے پاس یقیناً اس وقت پارٹی کے اندرونی مسائل کو حل کرنے کیلئے بھی کوئی لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔ خان صاحب کو چاہیے کہ پہلے پارٹی کے اندرونی مسائل کی طرف توجہ دیں ، اس کے بعد موجودہ نظام اور حکومت کے خلاف ایسے ٹھوس شواہد اکٹھے کریں جنہیں وہ جوڈیشل کمیشن کے سامنے بھی لے جا سکیں اور پھر سے ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ موجودہ کرپٹ نظام کے خلاف میدان میں اتریں اور مجھے یقین ہے کہ عوام بھی خان صاحب کا پورا ساتھ دیگی۔ امید کرتا ہوں کہ ان سب حالات سے سبق حاصل کرتے ہوئے انشاءاللہ آئندہ خان صاحب اپنے سیاسی مزاج میں پختگی پیدا کریں گے اور ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی انتشار کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
Comments
Post a Comment