فی زمانہ باطل اس بات کی سر توڑ کر رہا ہے کہ کسی طرح اسلامی تہذیب اور اسلامی ثقافت کو دنیا سے معدوم کر دیا جائے. لوگوں کو اسلام سے دور کرنے کیلئے یہ سب سے مؤثر ہتھیار ہے کہ مسلمانوں سے ان کی شناخت چھین لی جائے اور انہیں خود کو دنیا کی اس ننگی تہذیب میں رنگنے پر مجبور کیا جائے. بد قسمتی سے ہمارے ملک کا لبرل طبقہ بھی اسی اصول اور نظریے پہ کاربند ہے. ہر مذہب اپنی ایک شناخت رکھتا ہے, اپنی ایک الگ تہذیب رکھتا ہے... یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اپنی تہذیب اور شناخت کو چھوڑ کر کسی اور کی شناخت اور تہذیب کو اپنانا احساس کمتری کی علامت ہے.
موجودہ دورمیں جن اسلامی روایات کو خاص طور پہ نشانہ بنایا جا رہا ہے اس میں خواتین کا پردہ کرنا سر فہرست ہے. ہمارے ملک کا ایک مضبوط اور با اثر طبقہ مسلمان خواتین کے پردہ کرنے کے خلاف ہے. ملک بھر میں خواتین کو پردہ کرنے کے حوالے سے جن مشکلات کا سامنا ہے وہ ایک الگ تفصیل طلب موضوع ہے مگر آج کچھ بات ہمارے تعلیمی اداروں میں پردے کے انتہائی حد تک کم ہوتے ہوئے رجحان پر کرنا چاہتا ہوں.
ملک بھر میں ایسے بہت سے واقعات ہیں جن میں طالبات کو محض پردہ کرنے اور اسلامی رجحان رکھنے کی پاداش میں متعصب رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے. اگر دیکھا جائے تو تعلیمی اداروں میں کچھ عرصہ قبل تک ایسی صورتحال نہیں تھی. اس وقت نجی تعلیمی اداروں میں خاص طور پر ایسی تنگ نظری عروج پہ ہے. روزمانہ اوصاف کے کالم نگار نوید مسعود ہاشمی صاحب اپنے ایک کالم میں اسی بارے میں لکھتے ہیں کہ
"میں ایسے بہت سے گرلز سکولوں کے نام گنوا سکتا ہوں کہ جہاں قوم کی بیٹیوں پر دوپٹہ یا اسکارف لینے پر پابندی عائد ہے. اور تاویل یہ گھڑی جاتی ہے کہ دوپٹہ یا اسکارف سر پر رکھنے سے لڑکیاں بوجھ محسوس کرتی ہیں.
لا حول ولا قوۃ الا باللہ ۔ ۔ یہ تاویل گڑھنے والے "جاہلوں" سے کوئی پوچھے کہ تم نرسری اور اول دوئم کے بچوں اور بچیوں پر نصاب کے نام پر کتابوں اور کاپیوں کا جس قدر بوجھ لاد دیتے ہو وہ اگر گدھے کو بھی اٹھانا پڑ جائے تو ہانپ اٹھے۔
اس وقت تمہیں بچوں او ان کے والدین کی جیبوں پر پڑنے والے بوجھ پر ترس نہیں آتا۔ ہاں جب بچیاں سروں پر دوپٹے یا اسکارف لینا شروع کر دیں تو تمہاری نیندیں حرام ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ۔ کہیں اس لیے تو نہیں کہ یہود و نصاریٰ سے تعلیم کے نام پر ہونے والی فنڈنگ میں کمی واقع ہونے کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے؟"
میرے اپنے مشاہدے میں بھی ایسے بہت سے واقعات ہیں جن میں طالبات کو اساتذہ کی طرف سے دوپٹہ، اسکارف یا نقاب اتارنے کیلئے مجبور کیا گیا۔ لاہور کے اسکول میں آٹھویں یا نویں جماعت کی طالبہ کو جو کہ ہر وقت دوپٹہ سر پہ لیے رکھتی تھی کلاس کی خاتون ٹیچر نے دوپٹہ اتارنے پر مجبور کیا۔ اکثر اسکولوں میں دوپٹے کی جگہ صرف ایک باریک پٹی ہی استعمال کی جاتی ہے لیکن وہ بھی طالبات اپنے سر پہ نہیں رکھ سکتیں۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسے تعلیمی اداروں میں کونسی "تعلیم" فراہم کی جارہی ہے؟ مسلم ملک میں رہتے ہوئے یہ کون لوگ ہیں جنہیں بچیوں کا دوپٹہ اور اسکارف لینا بھی کھٹکتا ہے؟ یہ معاملہ نہایت غور طلب ہے اگر اس پہ ابھی سے خاطر خواہ توجہ نہ دی گئی تو بہت امکان ہیں کہ آئندہ چند سالوں میں ہمارے تعلیمی اداروں میں اور بھی بھیانک صورتحال دیکھنے کو ملے۔
Comments
Post a Comment